EN हिंदी
متاع و مال ہوس حب آل سامنے ہے | شیح شیری
mata-o-mal-e-hawas hubb-e-al samne hai

غزل

متاع و مال ہوس حب آل سامنے ہے

راہی فدائی

;

متاع و مال ہوس حب آل سامنے ہے
شکار خود کو بچا دیکھ جال سامنے ہے

خیال کہنہ مقید ہے تیری سوچوں میں
رہائی دے کہ سزا یرغمال سامنے ہے

مجھے ملال ہے اپنی فلک نشینی پر
یہی عروج کی حد پھر زوال سامنے ہے

رگوں میں خون کے بدلے مچل رہی ہے آگ
زیاں بدن کا نہ جاں کا وبال سامنے ہے

یہی ہے کعبۂ مقصود اسی سے جلوۂ عرش
اٹھا لے چاہ سے قوت حلال سامنے ہے

وہ با کمال سیاق و سباق پر حاوی
گزشتہ اس کی نظر میں مآل سامنے ہے

سزا کی ہمت عالی بھی ہو گئی پسپا
ہزار ہا عرق انفعال سامنے ہے

خلوص سکۂ افتادہ جیب ہستی کا
اٹھا کے ڈال دے دست سوال سامنے ہے

ہمارے صبر کی حد ہم پہ آشکارا ہو
مسببا سبب اشتعال سامنے ہے

مجھے عزیز ہے صحرائے ممکنات کی سیر
یہ اور بات کہ باغ محال سامنے ہے

نظر بخیر ہو راہیؔ کہ بوئے گل کی طرح
چھپا ہے وہ مگر اس کا جمال سامنے ہے