متاع عمر گزشتہ سمیٹ کر لے جا
جو ہو سکے تو مرا درد اپنے گھر لے جا
تو جا رہا ہے تو میری سسکتی آنکھوں سے
سلگتی شام پگھلتی ہوئی سحر لے جا
اچٹتی آنکھوں سے تہذیب کا سفر کیسا
تو اپنے آپ کو تاریخ کے ادھر لے جا
حضور دوست اک آئینہ جگمگاتا ہے
تو اپنی ذات کا پیکر تراش لے کر لے جا
سلگ رہی ہے تری یاد مری رگ رگ میں
اب اپنی یاد مرے دل سے چھین کر لے جا
اثرؔ کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہنر کے سوا
تو بے ہنر ہے تو سرمایۂ ہنر لے جا
غزل
متاع عمر گزشتہ سمیٹ کر لے جا
محمد علی اثر