EN हिंदी
متاع شوق تو ہے درد روزگار تو ہے | شیح شیری
mata-e-shauq to hai dard-e-rozgar to hai

غزل

متاع شوق تو ہے درد روزگار تو ہے

عرشی بھوپالی

;

متاع شوق تو ہے درد روزگار تو ہے
اگر بہار نہیں عشرت بہار تو ہے

ادائے چاک گریباں سے با خبر نہ سہی
جنون شوق کو فردا کا اعتبار تو ہے

ترس رہے ہیں دل و جاں جو رنگ و بو کے لئے
مرے نصیب میں اک دشت انتظار تو ہے

کہاں نصیب ہوس کو جنوں کی آرائش
لہو لہو ہے گریبان تار تار تو ہے

ان آبلوں کو حقارت سے دیکھنے والے
ان آبلوں سے چمن کا ترے وقار تو ہے

ہزار طرح سے رسوا ہیں اہل درد تو کیا
ترا دیار تو ہے تیرا رہ گزار تو ہے

حیات تلخ سہی روز و شب حرام سہی
دل و نظر کو یہ ماحول سازگار تو ہے