EN हिंदी
متاع حرف بھی خوشبو کے ماسوا کیا ہے | شیح شیری
mata-e-harf bhi KHushbu ke ma-siwa kya hai

غزل

متاع حرف بھی خوشبو کے ماسوا کیا ہے

سعود عثمانی

;

متاع حرف بھی خوشبو کے ماسوا کیا ہے
ہوا کے رخ پہ نہ جاؤں تو راستا کیا ہے

میں زرد بیج ہوں اور سبز ہونا چاہتا ہوں
مری زمیں تری مٹی کا مشورہ کیا ہے

یہ میری کاغذی کشتی ہے اور یہ میں ہوں
خبر نہیں کہ سمندر کا فیصلہ کیا ہے

بکھر رہا ہوں تری طرح میں بھی اے زر گل
سو تجھ سے پوچھتا ہوں تیرا تجربہ کیا ہے