EN हिंदी
مت سمجھنا کہ صرف تو ہے یہاں | شیح شیری
mat samajhna ki sirf tu hai yahan

غزل

مت سمجھنا کہ صرف تو ہے یہاں

واجد امیر

;

مت سمجھنا کہ صرف تو ہے یہاں
ایک سے ایک خوب رو ہے یہاں

پر ہے بازار حسن چہروں سے
جانے کس کس کی آبرو ہے یہاں

کیسے آباد ہو یہ ویرانہ
وحشت کذب چار سو ہے یہاں

آنکھ کی پتلیوں کو غور سے دیکھ
تیری تصویر ہو بہو ہے یہاں

کیسے تاریخ لکھی جائے گی
صرف تلوار اور گلو ہے یہاں

تو کہاں ہے خبر نہیں اے دوست
رات دن تیری گفتگو ہے یہاں

جھانکتا کون ہے گریباں میں
آئینہ کس کے رو بہ رو ہے یہاں

مقتل آرزو ہے دل واجدؔ
ہر تمنا لہو لہو ہے یہاں