EN हिंदी
مستوں پہ انگلیاں نہ اٹھاؤ بہار میں | شیح شیری
maston pe ungliyan na uThao bahaar mein

غزل

مستوں پہ انگلیاں نہ اٹھاؤ بہار میں

حفیظ جالندھری

;

مستوں پہ انگلیاں نہ اٹھاؤ بہار میں
دیکھو تو ہوش ہے بھی کسی ہشیار میں

کچھ محتسب کا خوف ہے کچھ شیخ کا لحاظ
پیتا ہوں چھپ کے دامن ابر بہار میں

وہ سامنے دھری ہے صراحی بھری ہوئی
دونوں جہاں ہیں آج مرے اختیار میں

اللہ بات کیا ہے کہ دیوانگی مری
دیوانگی نہیں نظر ہوشیار میں

جھوٹی تسلیوں سے نہ بہلاؤ جاؤ جاؤ
جاؤ کہ تم نہیں ہو مرے اختیار میں

ہوں وادیٔ حیات میں اس طرح سست گام
جیسے ہو پا شکستہ کوئی خار زار میں

اب وہ سکون یاس نہ وہ اضطراب شوق
سینے میں دل ہے یا کوئی لاشہ مزار میں

اب خاک اڑائیے نہ ہمارے مزار کی
اب خاک بھی نہیں ہے ہمارے مزار میں

تنہائی فراق میں امید بارہا
گم ہو گئی سکوت کے ہنگامہ زار میں

وہ عندلیب گلشن معنی ہوں میں حفیظؔ
سوز سخن سے آگ لگا دوں بہار میں