مستی ازل کی شہ پر جبریل ہو گئی
میری بیاض پرتو انجیل ہو گئی
دل کا گداز آہ کی تاثیر دیکھ کر
پتھر کی ذات کانپ کے تحلیل ہو گئی
ہر لفظ کنکری کی طرح غیر پر گرا
اپنی دعا فلک پہ ابابیل ہو گئی
فرعون بے کرم جو ہوا مائل ستم
ندی مرے لہو کی وہیں نیل ہو گئی
جانا تھا زود تر مجھے میدان حشر میں
یا شغل حادثات میں ہی ڈھیل ہو گئی
غزل
مستی ازل کی شہ پر جبریل ہو گئی
شیر افضل جعفری