مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں
دو آڑے سیدھے رکھ لیے تنکے جہاں کہیں
پھولوں کی سیج پھولوں کی ہیں بدھیاں کہیں
کانٹوں پہ ہم تڑپتے ہیں او آسماں کہیں
جاتے کدھر ہو تم صف محشر میں خیر ہے
دامن نہ ہو خدا کے لیے دھجیاں کہیں
پہرا بٹھا دیا ہے یہ قید حیات نے
سایہ بھی ساتھ ساتھ ہے جاؤں جہاں کہیں
بس مجھ کو داد مل گئی محنت وصول ہے
سن لے غزل یہ بلبل ہندوستاں کہیں
شاعرؔ وہ آج پھر وہیں جاتے ہوئے ملے
دشمن کے سر پہ ٹوٹ پڑے آسماں کہیں
غزل
مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں
آغا شاعر قزلباش