مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں
جاتی ہیں لا مکاں کو دل شب کی زاریاں
چہرے پہ جیسے زخم ہے ناخن کا ہر خراش
اب دیدنی ہوئی ہیں مری دستکاریاں
سو بار ہم نے گل کے گئے پر چمن کے بیچ
بھر دی ہیں آب چشم سے راتوں کو کیاریاں
کشتے کی اس کے خاک بھرے جسم زار پر
خالی نہیں ہیں لطف سے لوہو کی دھاریاں
تربت سے عاشقوں کے نہ اٹھا کبھو غبار
جی سے گئے ولے نہ گئیں راز داریاں
اب کس کس اپنی خواہش مردہ کو روئیے
تھیں ہم کو اس سے سینکڑوں امیدواریاں
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
کیا جانتے تھے ایسے دن آ جائیں گے شتاب
روتے گذرتیاں ہیں ہمیں راتیں ساریاں
گل نے ہزار رنگ سخن سر کیا ولے
دل سے گئیں نہ باتیں تری پیاری پیاریاں
جاؤ گے بھول عہد کو فرہاد و قیس کے
گر پہنچیں ہم شکستہ دلوں کی بھی باریاں
بچ جاتا ایک رات جو کٹ جاتی اور میرؔ
کاٹیں تھیں کوہ کن نے بہت راتیں بھاریاں
غزل
مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں
میر تقی میر