مسرتوں کی ساعتوں میں اختصار کر لیا
حیات غم کو ہم نے اور سازگار کر لیا
قسم جب اس نے کھائی ہم نے اعتبار کر لیا
ذرا سی دیر زندگی کو خوش گوار کر لیا
وہ آج چاہتے تھے بات کچھ بڑھے مگر وہ ہم
کہ بات بات پر سکوت اختیار کر لیا
کہو کہ مہر صبح تاب آئے ہو کے بے نقاب
کوئی بس آ چکا کسی کا انتظار کر لیا
قدم قدم پہ حادثے قدم قدم پہ انقلاب
ہمیں تو دیکھو زندگی کا اعتبار کر لیا
غزل
مسرتوں کی ساعتوں میں اختصار کر لیا
محشر عنایتی