مسئلوں کی بھیڑ میں انساں کو تنہا کر دیا
ارتقا نے زندگی کا زخم گہرا کر دیا
ڈیڑھ نیزے پر ٹنگے سورج کی آنکھیں نوچ لو
بے سبب دہشت زدہ ماحول پیدا کر دیا
فکر کی لا مرکزیت جاگتی آنکھوں میں خواب
ہم خیالی نے زمانے بھر کو اپنا کر دیا
اک شجر کو جسم کی نم سبز گاہوں کی تلاش
اور اس تحریک نے جنگل کو سونا کر دیا
خون کی سرخی سفیدی کی طرح محو سفر
کچھ نئے رشتوں نے ہر رشتے کو گندا کر دیا
اک کرن تسخیر کل کی سمت تھا پہلا قدم
آگ اگلتی آندھیوں نے ہم کو اندھا کر دیا

غزل
مسئلوں کی بھیڑ میں انساں کو تنہا کر دیا
یعقوب یاور