EN हिंदी
مسئلے کا حل نہ نکلا دیر تک | شیح شیری
masale ka hal na nikla der tak

غزل

مسئلے کا حل نہ نکلا دیر تک

شیام سندر نندا نور

;

مسئلے کا حل نہ نکلا دیر تک
رات بھر جاگ بھی سوچا دیر تک

مسکرا کر اس نے دیکھا دیر تک
دل ہمارا آج دھڑکا دیر تک

آپ آئے ہیں تو یہ آیا خیال
بام پر کیوں پنچھی چہکا دیر تک

ٹوٹتے ہی ان سے امید وفا
دل ہمارا پھر نہ دھڑکا دیر تک

پھول اپنے رس سے ونچت ہو گیا
پھول پر بھنورا جو بیٹھا دیر تک

کھل گیا اس کی وفاؤں کا بھرم
دے نہ پایا مجھ کو دھوکا دیر تک

ناز سے وہ زلف سلجھاتے رہے
چھت پہ میری چاند چمکا دیر تک

جس جگہ انسان کی عزت نہ ہو
اس جگہ پھر کیا ٹھہرنا دیر تک

خوب رویا میں کسی کی یاد میں
اب کی بادل خوب برسا دیر تک

چل دیا وہ سب کو تنہا چھوڑ کر
کاش وہ دنیا میں رہتا دیر تک

وہ چھڑا کر اپنا دامن چل دیئے
رہ گیا میں ہاتھ ملتا دیر تک

زہر سے لبریز ساغر کا مزہ
پیار میں ہم نے بھی چکھا دیر تک

یہ زمانہ بے وفا ہے نورؔ جی
کب کسی کا ساتھ دے گا دیر تک