مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دل میں گھر کیسے کریں
درمیاں کے فاصلے کا طے سفر کیسے کریں
کوئی سنتا ہی نہیں عرض ہنر کیسے کریں
خود کو ہم اپنی نظر میں معتبر کیسے کریں
آخری پتھر سے بے سمت و نشاں جانا ہے اب
ہم کھلی آنکھوں سے یہ اندھا سفر کیسے کریں
جان کے جانے کا اندیشہ بہت ہے اب کی بار
معرکہ بھی آخری کرنا ہے سر کیسے کریں
کچھ دنوں کی بات ہو تو کاٹ دیں آنکھوں میں رات
نیند اگر آئے نہ فرخؔ عمر بھر کیسے کریں
غزل
مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دل میں گھر کیسے کریں
فرخ جعفری