مسئلہ ہوں میں سدا سے کم نگاہی کے لئے
کون اٹھے گا بھلا میری گواہی کے لئے
لوٹ آیا پھر سے وہ طوفان صحرا کی طرف
شہر میں باقی نہ تھا کچھ بھی تباہی کے لئے
آج بھی میں تیری آنکھوں کے جزیروں میں پناہ
ڈھونڈھتا پھرتا ہوں اپنی بے پناہی کے لئے
دل کے دریا میں مری یادوں کی گہرائی تلک
ڈوب کے آئے گا کون اب خیر خواہی کے لئے
بولتے رہنے سے اے شہزادؔ کچھ حاصل نہیں
خامشی درکار ہے اس کج کلاہی کے لئے

غزل
مسئلہ ہوں میں سدا سے کم نگاہی کے لئے
شہزاد رضا لمس