مسافت کی گراں ہر ایک ساعت ٹوٹ جاتی ہے
تری چشم عنایت سے اذیت ٹوٹ جاتی ہے
تری یادوں کی صورت سے نکلتی ہے عجب صورت
اجالے یوں برستے ہیں کہ ظلمت ٹوٹ جاتی ہے
صدائے حق شناسی گشت کرتی رہتی ہے لیکن
زمانہ یہ سمجھتا ہے صداقت ٹوٹ جاتی ہے
برائے جذبہ سازی کچھ دکھاوا ہو مگر یارو
ریا کاری برتنے سے عبادت ٹوٹ جاتی ہے
غزل میں جدت و ندرت ضروری ہے بہت امجدؔ
مگر فنی بخالت سے سلاست ٹوٹ جاتی ہے
غزل
مسافت کی گراں ہر ایک ساعت ٹوٹ جاتی ہے
غفران امجد