EN हिंदी
مرنے کا پتہ دے مرے جینے کا پتہ دے | شیح شیری
marne ka pata de mere jine ka pata de

غزل

مرنے کا پتہ دے مرے جینے کا پتہ دے

سرمد صہبائی

;

مرنے کا پتہ دے مرے جینے کا پتہ دے
اے بے خبری کچھ مرے ہونے کا پتہ دے

اک دوسرے کی آہٹوں پہ چلتے ہیں سب لوگ
ہے کوئی یہاں جو مجھے رستے کا پتہ دے

خود آپ سے بچھڑا ہوں میں اس اندھے سفر میں
اے تیرگی شب مرے سائے کا پتہ دے

اس آس پہ ہر آئینے کو جوڑ رہا ہوں
شاید کوئی ریزہ مرے چہرے کا پتہ دے

گزری ہے مری عمر سرابوں کے سفر میں
اے ریگ رواں اب کسی چشمے کا پتہ دے

ہر پل کسی آہٹ پہ مرے کان لگے ہیں
جیسے ابھی کوئی ترے آنے کا پتہ دے

بکھرا ہوا ہوں صدیوں کی بے انت تہوں میں
مجھ کو کوئی کھوئے ہوئے لمحے کا پتہ دے

دہلیز دلاسا ہے نہ دیوار اماں ہے
اے در بدری میرے ٹھکانے کا پتہ دے

ہوں قید حصار رگ گرداب میں سرمدؔ
کوئی نہیں جو مجھ کو کنارے کا پتہ دے