مرنا تو بہتر ہے جو مر جائیے
جی سے کسی کے نہ اتر جائیے
قتل تو کرتا نہیں وہ کس طرح
اس کے گناہ گار ٹھہر جائیے
کیا لکھوں طاقت نہیں اے نامہ بر
مرنے ہی کی لے کے خبر جائیے
آئے ہو گر یاں تلک اے مہرباں
بیٹھے کوئی دم تو ٹھہر جائیے
سوئے حرم یا طرف بت کدہ
الغرض اے شیخ جدھر جائیے
دونوں جگہ جلوہ گہہ یار ہے
خواہ ادھر خواہ ادھر جائیے
غزل
مرنا تو بہتر ہے جو مر جائیے
جوشش عظیم آبادی