مرنا تقدیر ہے زنجیر بجا لو پہلے
کچھ ہو صیاد سے آنکھیں تو ملا لو پہلے
ابر تم کھل کے برسنا سر گلزار حیات
دشمن گل پہ ذرا برق گرا لو پہلے
دار کی سمت رواں ہو مگر اے دیوانو
اک جہاں داد گر اپنا تو بنا لو پہلے
عشق کا زہر جو گھل جائے تو پی لو بے غم
جام مے اور ذرا تیز ملا لو پہلے
عرش تقدیس کو جاتے ہوئے اے آدم نو
کہکشاں گرد ہے رستے سے ہٹا لو پہلے
تم نے سن رکھا ہے آزادیٔ جاویدؔ کا نام
مرگ کی آنکھ سے آنکھیں تو ملا لو پہلے
غزل
مرنا تقدیر ہے زنجیر بجا لو پہلے
جاوید لاہوری