مرنا جینا وفا حیا کیا ہے
ہم سے پوچھو یہ مدعا کیا ہے
جو بھی ہے صاف صاف بولے وہ
بے خبر ہے خفا خفا کیا ہے
میرا محبوب ہے مرا مصرع
بول اب تیرا قافیہ کیا ہے
جس کو ہم نے نچوڑ پھینکا ہے
اس جوانی میں اب بچا کیا ہے
میں نے اپنے طبیب سے پوچھا
درد وہ ہے تو پھر دوا کیا ہے
ہم جوانی تلک پہنچ آئے
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
تم خدائی کا دعویٰ کرتے ہو
تم خدا ہو تو پھر خدا کیا ہے
پہلے جاں میرے لب تک آ جائے
پھر بتاؤں گا حوصلہ کیا ہے
خشک لب تین دن کی فاقہ کشی
تم نا سمجھو گے کربلا کیا ہے
نام اشراقؔ ہے عزیزیؔ ہے
سچ بتا تیرا نام کیا کیا ہے
غزل
مرنا جینا وفا حیا کیا ہے
اشراق عزیزی