مرہم زخم جگر ہو جائے
ایک ایسی بھی نظر ہو جائے
اک اشارہ بھی اگر ہو جائے
اس شب غم کی سحر ہو جائے
صبح یہ فکر کہ ہو جائے شام
شام کو یہ کہ سحر ہو جائے
ہو نہ اتنا بھی پریشاں کوئی
کہ زمانے کو خبر ہو جائے
یوں تو جو کچھ بھی کسی پر گزرے
دل نہ افسردہ مگر ہو جائے
فکر فردا بھی کریں گے حیرتؔ
پہلے یہ شب تو بسر ہو جائے
غزل
مرہم زخم جگر ہو جائے
عبدالمجید حیرت