مرحلے زیست کے دشوار نہیں دیوانو
ماورائے رسن و دار نہیں دیوانو
کیا کرو گے دل پر خوں کی حکایت سن کر
یہ حدیث لب و رخسار نہیں دیوانو
آج کیوں پند گر وقت کی تقریروں میں
لذت شوخئ گفتار نہیں دیوانو
خاکۂ ذہن پہ ابھرے تو کوئی نقش جمیل
بند دروازۂ انکار نہیں دیوانو
کیا کرو گے مہ و انجم پہ جما کر نظریں
مہر گیتی ہی ضیا بار نہیں دیوانو
پرسش حال میں احساس تکلف کیسا
کوئی سایہ پس دیوار نہیں دیوانو
کوئی روشن تو کرے شمع شبستان خیال
منجمد چشمۂ انوار نہیں دیوانو
غزل
مرحلے زیست کے دشوار نہیں دیوانو
منظر ایوبی