مرحلے ایسے بھی اکثر آئے
پھول برسائے تو پتھر آئے
اک فقط آپ کے ہو جانے سے
کتنے الزام میرے سر آئے
جام ٹھکرا دیے جب بھی میں نے
سامنے میرے سمندر آئے
ایک چہرے پہ بشارت نہ ملی
ان گنت چہروں کو پڑھ کر آئے
بھول جاتے ہیں پرندے ماں کو
جب بھی اڑنے کو ذرا پر آئے
آپ کا شہر کہ تھا شہر ادب
بے ادب اس میں بھی کچھ در آئے
عشق میں تاجؔ کشش ہو ایسی
خود ہی محبوب تڑپ کر آئے

غزل
مرحلے ایسے بھی اکثر آئے
ریاست علی تاج