مرحبا تم بھی ضرورت سے ملے
کون ہے اب جو محبت سے ملے
زندگی نے جو دئے ہم کو سبق
وہ کہاں پند و نصیحت سے ملے
دل ملانے سے بھلا کیا حاصل
جب طبیعت نہ طبیعت سے ملے
ہائے وہ شہر اماں جس میں ہم
روز اک تازہ قیامت سے ملے
یہ جو پلکوں پہ سجے ہیں موتی
سب ہمیں اس در دولت سے ملے
کون ہوگا وہ بجز آئینہ
شکل جس کی تری صورت سے ملے
آج پھینکی گئی ہم پر کچھ خاک
آج ہم اپنی حقیقت سے ملے
ہم نے سمجھا ہے انہیں پیار کے پھول
زخم جو سنگ ملامت سے ملے
تھے وہ عجلت میں گئے یہ کہہ کر
جس کو فرصت ہو وہ فرصت سے ملے
غزل
مرحبا تم بھی ضرورت سے ملے
مہتاب عالم