مر رہتے ہیں در پر ترے دو چار ہمیشہ
ہے جور و جفا تجھ کو سزا وار ہمیشہ
عاشق ترا مرنے کو ہے تیار ہمیشہ
دکھلا نہ مژہ خنجر خوں خار ہمیشہ
اک چھیڑ نکالے ہے نئی یار ہمیشہ
رہتا ہے مرے درپئے آزار ہمیشہ
اللہ سلامت رکھے تیرے لب شیریں
سنوایا کرے باتیں مزے دار ہمیشہ
ہے ڈر سے ترے عالم بالا تہ و بالا
لٹکے ہے تری عرش پہ تلوار ہمیشہ
جوں حلقۂ در در پہ ترے صبح سے تا صبح
رہتا ہے ترا طالب دیدار ہمیشہ
اظہار کروں جس سے میں احوال کو اپنے
احوال تباہ اس کا رہے یار ہمیشہ
غزل
مر رہتے ہیں در پر ترے دو چار ہمیشہ
جوشش عظیم آبادی