EN हिंदी
مر کر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں | شیح شیری
mar kar tere KHayal ko Tale hue to hain

غزل

مر کر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں

فانی بدایونی

;

مر کر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
ہم جان دے کے دل کو سنبھالے ہوئے تو ہیں

بے زار ہو نہ جائے کہیں زندگی سے دل
تاثیر سے خفا مرے نالے ہوئے تو ہیں

رستے ہیں اب کے سال کہ بہتے ہیں دیکھیے
پھر فصل گل میں زخم دل آلے ہوئے تو ہیں

ارماں جو یوں نہیں تو نکلتے ہیں کس طرح
یعنی ہمارے دل سے نکالے ہوئے تو ہیں

ہاں درد عشق ان پہ کرم کی نظر رہے
صبر و قرار تیرے حوالے ہوئے تو ہیں

یہ صحبتیں بھی دیکھیے لاتی ہیں رنگ کیا
مہمان خار پاؤں کے چھالے ہوئے تو ہیں

کیا جانیے کہ حشر ہو کیا صبح حشر کا
بیدار تیرے دیکھنے والے ہوئے تو ہیں

فانیؔ ترے عمل ہمہ تن جبر ہی سہی
سانچے میں اختیار کے ڈھالے ہوئے تو ہیں