EN हिंदी
مر کر بھی چھوٹتی نہیں اکثر لگی ہوئی | شیح شیری
mar kar bhi chhuTti nahin akasr lagi hui

غزل

مر کر بھی چھوٹتی نہیں اکثر لگی ہوئی

مذاق بدایونی

;

مر کر بھی چھوٹتی نہیں اکثر لگی ہوئی
ہوتی بہت بری ہے مقرر لگی ہوئی

اس شعلہ رو کو لاگ ہے ہر دل سے کیا بجھے
ہے سب گھروں میں آگ برابر لگی ہوئی

دل کی خبر جو آتی ہے ہر دم زبان پر
رہتی ہے دم کی ڈاک برابر لگی ہوئی

سوز دروں نے پھونک دیا جسم و جان و دل
اک آگ ہے کلیجہ کے اندر لگی ہوئی

بھولے ہیں ذوق مے سے مذاقؔ اپنی جاں تو کیا
دل سے ہے یاد ساقیٔ کوثر لگی ہوئی