مقتل سے میرا کاسۂ سر کون لے گیا
اس تک یہ دل خراش خبر کون لے گیا
چہرے پہ گرد راہ بھی باقی نہیں رہی
مجھ سے مرا ثبوت سفر کون لے گیا
راس آ چلی تھی دل کی فضائے جنون شوق
بہکا کے مجھ کو دشت سے گھر کون لے گیا
بے لوث دوستی کے زمانے کہاں گئے
سرمایۂ خلوص بشر کون لے گیا
یہ دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی
کس کا ہنر تھا داد ہنر کون لے گیا
گھر سے نکل پڑے ہیں تو اب کیا یہ دیکھنا
رستے سے سایہ دار شجر کون لے گیا
دریا وہی ہے اس کی روانی وہی مگر
روپوش تھا جو تہہ میں گہر کون لے گیا
اعمال اپنے دیکھ کے یہ تجزیہ بھی کر
ناظرؔ تری دعا سے اثر کون لے گیا
غزل
مقتل سے میرا کاسۂ سر کون لے گیا
ناظر صدیقی