EN हिंदी
مقصد حسن ہے کیا چشم بصیرت کے سوا | شیح شیری
maqsad-e-husn hai kya chashm-e-basirat ke siwa

غزل

مقصد حسن ہے کیا چشم بصیرت کے سوا

گلزار دہلوی

;

مقصد حسن ہے کیا چشم بصیرت کے سوا
وجہ تخلیق بشر کیا ہے محبت کے سوا

خون دل تھوکتے پھرتے ہیں جہاں میں شاعر
کیا ملا شہر سخن میں انہیں شہرت کے سوا

آج بھی علم و فن و شعر و ادب ہیں پامال
با کمالوں کو ملا کچھ نہ اہانت کے سوا

ہاتھ میں جن کے خوشامد کا ہے گدلا کشکول
ان کو اعزاز بھی مل جائیں گے عزت کے سوا

رات دن رنج ہے اس بات کا سب کو خالق
عرصۂ حشر میں کیا لائیں ندامت کے سوا

یہ مشینوں کی چکا چوند یہ دور آلات
اس میں ہر چیز مقدر ہے مروت کے سوا

غوطہ زن ہم رہے کثرت کے سمندر میں فضول
کون یہ پیاس بجھائے تری وحدت کے سوا

کیا زمانے میں دیا تو نے عقیدت کا مآل
ہم کو رنج و غم و اندوہ و مصیبت کے سوا

ہم جو اپنائیں زمانے میں توکل یا رب
باب کھل جائیں گے ہم پر تری رحمت کے سوا

جب اترتی ہوں سر عرش سے آیات جنوں
کون ہو خالق‌ اشعار مشیت کے سوا

کتنے حاتم ملے گلزارؔ زمانے میں ہمیں
وہ کہ ہر چیز کے واصف تھے سخاوت کے سوا