مقام نور ہو کر رہ گیا ہے
وہ ہم سے دور ہو کر رہ گیا ہے
چراغ دل بجھا تو تن بدن میں
دھواں محصور ہو کر رہ گیا ہے
خودی میں بے خودی کو چھو لیا تھا
نشہ کافور ہو کر رہ گیا ہے
ہوا گھیرے ہوئے ہے طاق شب کو
دیا معذور ہو کر رہ گیا ہے
جو تارہ خاک سے ہونا تھا ظاہر
وہی مستور ہو کر رہ گیا ہے
یہ دل حد سے گزرنا چاہتا تھا
مگر مجبور ہو کر رہ گیا ہے
مرا غم تیری تاریخ کرم میں
فقط مذکور ہو کر رہ گیا ہے
انہی ہاتھوں سے بننا اور مٹنا
یہی دستور ہو کر رہ گیا ہے
غزل
مقام نور ہو کر رہ گیا ہے
خاور اعجاز