EN हिंदी
مقام نور ہو کر رہ گیا ہے | شیح شیری
maqam-e-nur ho kar rah gaya hai

غزل

مقام نور ہو کر رہ گیا ہے

خاور اعجاز

;

مقام نور ہو کر رہ گیا ہے
وہ ہم سے دور ہو کر رہ گیا ہے

چراغ دل بجھا تو تن بدن میں
دھواں محصور ہو کر رہ گیا ہے

خودی میں بے خودی کو چھو لیا تھا
نشہ کافور ہو کر رہ گیا ہے

ہوا گھیرے ہوئے ہے طاق شب کو
دیا معذور ہو کر رہ گیا ہے

جو تارہ خاک سے ہونا تھا ظاہر
وہی مستور ہو کر رہ گیا ہے

یہ دل حد سے گزرنا چاہتا تھا
مگر مجبور ہو کر رہ گیا ہے

مرا غم تیری تاریخ کرم میں
فقط مذکور ہو کر رہ گیا ہے

انہی ہاتھوں سے بننا اور مٹنا
یہی دستور ہو کر رہ گیا ہے