مقام امن قفس کیا کہ آشیاں بھی نہیں
سکوں وہاں بھی نہیں تھا سکوں یہاں بھی نہیں
مرا کلام پیام عمل نہ ہو لیکن
تمام تر نگہ و دل کی داستاں بھی نہیں
مری نگاہ میں منزل ہے عام انساں کی
مقام دار نہیں بزم مہ رخاں بھی نہیں
یہ بار شدت احساس کا ہے نادانو
گراں ہے زیست مگر اس قدر گراں بھی نہیں
ہے نقش خون جگر سے ہر ایک فن کو ثبات
جو یہ نہیں تو کوئی نقش جاوداں بھی نہیں
غزل
مقام امن قفس کیا کہ آشیاں بھی نہیں
مقبول نقش