منظورؔ لہو کی بوند کوئی اب تک نہ مری بے کار گری
یا رنگ حنا بن کر چمکی یا پیش صلیب و دار گری
اوروں پہ نہ جانے کیا گزری اس تیغ و تبر کے موسم میں
ہم سر تو بچا لائے لیکن دستار سر بازار گری
جو تیر اندھیرے سے تھے چلے وہ سرحد جاں کو چھو نہ سکے
چلتا تھا میں جس کے سائے میں گردن پہ وہی تلوار گری
کیا جانئے کیسی تھی وہ ہوا چونکا نہ شجر پتہ نہ ہلا
بیٹھا تھا میں جس کے سائے میں منظورؔ وہی دیوار گری
غزل
منظورؔ لہو کی بوند کوئی اب تک نہ مری بے کار گری
ملک زادہ منظور احمد