منزلوں کا نشان کب دے گا
آہ کو آسمان کب دے گا
عظمتوں کا نشان کب دے گا
میرے حق میں بیان کب دے گا
ظلم تو بے زبان ہے لیکن
زخم کو تو زبان کب دے گا
صبح سجدے سمیٹے سوئی ہے
پر اندھیرا اذان کب دے گا
ان ٹھٹھرتے ہوئے اجالوں کو
دھوپ سا سائبان کب دے گا
موج ماہی نگل نہ جائے کہیں
نوح سا نگہبان کب دے گا
مجھ کو جنگل دیا ہے جینے کو
بزدلوں کو مچان کب دے گا
بس یہی پوچھنا ہے اس سے نظامؔ
پر دیے ہیں اڑان کب دے گا
غزل
منزلوں کا نشان کب دے گا
شین کاف نظام