منزلوں کا میں پتا بھی دوں گا
خود کو رستے سے ہٹا بھی دوں گا
اتنا احسان فراموش نہیں
بے وفائی کا صلہ بھی دوں گا
اپنی حسرت تو وہ پوری کر لے
دشمن جاں کو دعا بھی دوں گا
پہلے دروازے پہ دستک دے لوں
پھر یہ دیوار گرا بھی دوں گا
زندگی جرم تو عائد کر دے
بے گناہی کو سزا بھی دوں گا
قتل بھی میں ہی کروں گا خود کو
اور پھر خون بہا بھی دوں گا
آگ بھڑکے گی تبسمؔ اپنی
یعنی شعلوں کو ہوا بھی دوں گا

غزل
منزلوں کا میں پتا بھی دوں گا
اکرام تبسم