منزلیں اور بھی ہیں وہم و گماں سے آگے
ہم کو کرنا ہے سفر قید مکاں سے آگے
پیکر شعر کو ملبوس عطا کیا کیجے
جب تخیل کی ہو پرواز بیاں سے آگے
آب اور خاک کی یہ بزم ہمیں کیا راس آتی
ہم کو جانا تھا ستاروں کے جہاں سے آگے
کب تلک دیر و حرم کی یہ حدیث بے سود
مسئلے اور ہیں ناقوس و اذاں سے آگے
جستجو اور ہے کچھ اہل جنوں کی ورنہ
کون کرتا ہے سفر جائے اماں سے آگے
کرب کو اپنے تماشہ نہ بنایا جائے
ہے ادب گاہ وفا آہ و فغاں سے آگے
نذر اندیشہ نہ ہو جائے کہیں زیست عبیدؔ
بات کچھ اور کریں سود و زیاں سے آگے
غزل
منزلیں اور بھی ہیں وہم و گماں سے آگے
عبید الرحمان