منزل نہ کوئی موڑ نہ رستا دکھائی دے
عالم تمام دھند میں لپٹا دکھائی دے
قاتل دکھائی دے نہ مسیحا دکھائی دے
ہر شخص اک فریب تماشا دکھائی دے
ویسے تو زندگی ہے اجالوں کا شہر بھی
دیکھو تو مقبروں کا اندھیرا دکھائی دے
جاؤں ادھر تو ایک سمندر ہے بے کراں
دیکھو ادھر تو پیاس کا صحرا دکھائی دے
رنگین ہے قتل گل سے ابھی دامن بہار
دست ہوس سے خون ٹپکتا دکھائی دے
تحت الشعور میں ہے جو اک لمحۂ خیال
لفظوں کی سیڑھیوں سے اترتا دکھائی دے
سنتا ہوں ساعتوں میں نگار سحر کی چاپ
منظر نقاب شام الٹتا دکھائی دے
ڈھونڈو کسی حسین خرابے میں زندگی
یہ دل تو سادھوؤں کا بسیرا دکھائی دے
ارض دکن میں بات چلی ہے کچھ اس طرح
ثاقبؔ دیار شعر میں تنہا دکھائی دے

غزل
منزل نہ کوئی موڑ نہ رستا دکھائی دے
میر نقی علی خاں ثاقب