EN हिंदी
منزل کے دور دور تک آثار تک بھی نہیں | شیح شیری
manzil ke dur dur tak aasar tak bhi nahin

غزل

منزل کے دور دور تک آثار تک بھی نہیں

ناظر صدیقی

;

منزل کے دور دور تک آثار تک بھی نہیں
میں راہ میں ٹھہرنے کو تیار بھی نہیں

حالات کہہ رہے ہیں کہ اس دور نو کے لوگ
سوئے ہوئے نہیں ہیں تو بے دار بھی نہیں

مجھ کو اگر پڑھا تو بھلا پائے گا نہ وہ
میں ہر نظر میں صبح کا اخبار بھی نہیں

جو دوسروں کے گھر میں اجالا نہ کر سکے
میں ایسی روشنی کا طلب گار بھی نہیں

ناظرؔ متاع دل یہ کہاں لے کے آ گئے
پہلی سی اب وہ گرمئ بازار بھی نہیں