منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا
وہ اس لیے کہ راہ کا پتھر بھی میں ہی تھا
شک ہو چلا تھا مجھ کو خود اپنی ہی ذات پر
جھانکا تو اپنے خول کے اندر بھی میں ہی تھا
ہوں گے مرے وجود کے سائے الگ الگ
ورنہ برون در بھی پس در بھی میں ہی تھا
پوچھ اس سے جو روانہ ہوئے کاٹ کر مجھے
راہ وفا میں شاخ صنوبر بھی میں ہی تھا
آسودہ جس قدر وہ ہوا مجھ کو اوڑھ کر
کل رات اس کے جسم کی چادر بھی میں ہی تھا
مجھ کو ڈرا رہی تھی زمانے کی ہم سری
دیکھا تو اپنے قد کے برابر بھی میں ہی تھا
آئینہ دیکھنے پہ جو نادم ہوا قتیلؔ
ملک ضمیر کا وہ سکندر بھی میں ہی تھا
غزل
منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا
قتیل شفائی