منزل ہے کہ اک رستۂ دشوار میں گم ہے
رستہ ہے کہ پیچ و خم دل دار میں گم ہے
جس دین سے ملتا تھا خدا خانۂ دل میں
ملا کے سجائے ہوئے بازار میں گم ہے
اجزائے سفر ورطۂ حیرت میں پڑے ہیں
رفتار ابھی صاحب رفتار میں گم ہے
سائل ہیں کہ امڈے ہی چلے آتے ہیں پیہم
وہ شوخ مگر اپنے ہی دیدار میں گم ہے
وہ حسن یگانہ ہے کوئی شہر طلسمات
ہر شخص جہاں رستوں کے اسرار میں گم ہے
اشخاص کے جنگل میں کھڑا سوچ رہا ہوں
اک نخل تمنا انہی اشجار میں گم ہے
یا حسن ہے ناواقف پندار محبت
یا عشق ہی آسانیٔ اطوار میں گم ہے
اے کاش سمجھتا کوئی پس منظر پیغام
دنیا ہے کہ پیرایۂ اظہار میں گم ہے
غزل
منزل ہے کہ اک رستۂ دشوار میں گم ہے
نعیم ضرار احمد