EN हिंदी
منظروں کی بھیڑ ایسی تو کبھی دیکھی نہ تھی | شیح شیری
manzaron ki bhiD aisi to kabhi dekhi na thi

غزل

منظروں کی بھیڑ ایسی تو کبھی دیکھی نہ تھی

کامل اختر

;

منظروں کی بھیڑ ایسی تو کبھی دیکھی نہ تھی
گاؤں اچھا تھا مگر اس میں کوئی لڑکی نہ تھی

روح کے اندر خلا ہے یہ مجھے معلوم تھا
کھوکھلا ہے جسم بھی اس کی خبر پہنچی نہ تھی

ہاتھ تھاما ہے سدا کے واسطے ویسے مگر
ساتھ اس کا چھوڑنے میں کچھ برائی بھی نہ تھی

ان دنوں بھی درد کا سایہ مرے ہمراہ تھا
جب دھواں بن کر وہ میرے ذہن پر چھائی نہ تھی

جذب ہو جانے کا قصہ خود سے بھی منسوب کر
بھول میری تھی اگر تو بھی کوئی دیوی نہ تھی

رنگ پکا ہو چلا تھا یاد آتا ہے مگر
دھوپ میرے جسم پر تب ٹھیک سے بھیگی نہ تھی

خواہشوں کا وہ جزیرہ بھی تو آخر بہہ گیا
خوف و خطرہ کی جہاں پر کوئی آبادی نہ تھی