منظروں کے درمیاں منظر بنانا چاہئے
رہ نورد شوق کو رستہ دکھانا چاہئے
اپنے سارے راستے اندر کی جانب موڑ کر
منزلوں کا اک نشاں باہر بنانا چاہئے
سوچنا یہ ہے کہ اس کی جستجو ہونے تلک
ساتھ اپنے خود رہیں ہم یا زمانا چاہئے
تیری میری داستاں اتنی ضروری تو نہیں
دنیا کو کہنے کی خاطر بس فسانا چاہئے
پھول کی پتی پہ لکھوں نظم جیسی اک دعا
ہاتھ اٹھانے کے لیے مجھ کو بہانا چاہئے
وصل کی کوئی نشانی ہجر کے باہم رہے
اب کے سادہ ہاتھ پر مہندی لگانا چاہئے
پھول خوشبو رنگ جگنو روشنی کے واسطے
گھر کی دیواروں میں اک روزن بنانا چاہئے
شام کو واپس پلٹتے طائروں کو دیکھ کر
سوچتی ہوں لوٹ کر اب گھر بھی جانا چاہئے
غزل
منظروں کے درمیاں منظر بنانا چاہئے
بشریٰ اعجاز