EN हिंदी
منظر مری آنکھوں میں رہے دشت سفر کے | شیح شیری
manzar meri aankhon mein rahe dasht-e-safar ke

غزل

منظر مری آنکھوں میں رہے دشت سفر کے

سلیم شاہد

;

منظر مری آنکھوں میں رہے دشت سفر کے
کچھ ریت کے ٹیلے در و دیوار ہیں گھر کے

لہروں پہ مرے پاؤں جمے ہیں کہ سفر میں
ہے شرط ٹھہرنا کہ زمیں پاؤں سے سر کے

تا عمر رہے جس کے لیے ذرۂ نا چیز
دیکھے وہ کبھی کاش بلندی سے اتر کے

پانی کے کئی رنگ دھنک میں ہیں کہ تو ہے
تصویر میں آئی ہے تری شکل نکھر کے

دریا کی طرح عرصۂ گل میں ہے رواں کیا
بادل کی طرح دیکھ ہواؤں میں ٹھہر کے

پتے تھے کبھی صرصر طوفان میں ٹوٹے
طائر ہیں کہ اڑ جائیں مری چاپ سے ڈر کے

ڈوبے ہیں وہ یوں سب کے سمندر میں کہ غم ہیں
سورج کی چمک آنکھ میں لائے تھے جو بھر کے

حسرت ہے کہ دیکھوں میں ابھرتا ہوا سورج
کس کہر میں ڈوبے ہیں در و بام سحر کے