EN हिंदी
منظر میں اگر کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا | شیح شیری
manzar mein agar kuchh bhi dikhai nahin dega

غزل

منظر میں اگر کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا

حسن ناصر

;

منظر میں اگر کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا
کوئی بھی ترے حق میں صفائی نہیں دے گا

وہ چاند جو اترا ہے کسی اور کے گھر میں
مجھ کو تو اندھیروں سے رہائی نہیں دے گا

خود اپنی زبانوں سے لہو چاٹنے والو
ظالم تو ستم کر کے دہائی نہیں دے گا

سہمی ہے سماعت کہ کوئی لفظ ہی گونجے
اک شور کہ پھر کچھ بھی سنائی نہیں دے گا

دہلیز کے اس پار بھی پہنچے گا بالآخر
کب تک یہ لہو اس کو دکھائی نہیں دے گا

جو شخص کمائے گا وہی کھائے گا ناصرؔ
اوروں کو کوئی اپنی کمائی نہیں دے گا