منظر میں اگر کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا
کوئی بھی ترے حق میں صفائی نہیں دے گا
وہ چاند جو اترا ہے کسی اور کے گھر میں
مجھ کو تو اندھیروں سے رہائی نہیں دے گا
خود اپنی زبانوں سے لہو چاٹنے والو
ظالم تو ستم کر کے دہائی نہیں دے گا
سہمی ہے سماعت کہ کوئی لفظ ہی گونجے
اک شور کہ پھر کچھ بھی سنائی نہیں دے گا
دہلیز کے اس پار بھی پہنچے گا بالآخر
کب تک یہ لہو اس کو دکھائی نہیں دے گا
جو شخص کمائے گا وہی کھائے گا ناصرؔ
اوروں کو کوئی اپنی کمائی نہیں دے گا
غزل
منظر میں اگر کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا
حسن ناصر