منظر کا احسان اتارا جا سکتا ہے
آنکھ کو یارا بھوکا مارا جا سکتا ہے
آنگن آنگن آگ اگائی جا سکتی ہے
کمروں میں دریا کا کنارا جا سکتا ہے
کرچی کرچی خواب چمکتا ہے آنکھوں میں
ان سے اب دنیا کو سنوارا جا سکتا ہے
بوندوں میں آئنے گھولے جا سکتے ہیں
چادر تن میں سفر گزارا جا سکتا ہے
جسم و دل کی ٹھن جانے پر یاد رکھو
جسم کو جیتو دل تو ہارا جا سکتا ہے
جس بستی کے راشن گھر میں خون بنٹے
وہاں فقط لاشوں کو سنوارا جا سکتا ہے
جس آنگن کی سانولیاں روٹی جیتیں
اس کے توے پر چاند اتارا جا سکتا ہے
آتشداں کا سینہ ٹھنڈا ہو سکتا ہے
برف کا ٹکڑا بن کے شرارہ جا سکتا ہے

غزل
منظر کا احسان اتارا جا سکتا ہے
اسامہ ذاکر