منظر جھلکتے چاند کا کتنا حسین تھا
اس کی قبا کی طرح وہ بادل مہین تھا
حیراں ہے مجھ کو دیکھ کے کیوں ٹوٹتا درخت
میں اگ رہا ہوں اب کہ میں زیر زمین تھا
اب کھل گیا ہے مجھ سے تو حد سے گزر گیا
ورنہ وہ دیکھنے میں تو بے حد متین تھا
میں ہوش مند رہ کے بھی نادان ہی رہا
جذبات میں وہ بہہ کے بھی کتنا ذہین تھا
تجھ کو رہا نہ اپنے زر غم کا اعتماد
ورنہ یہ دل تو درد جہاں کا امین تھا
عارفؔ زبان اس کی نہ دیتی تھی دل کا ساتھ
انکار کر کے آئے گا مجھ کو یقین تھا

غزل
منظر جھلکتے چاند کا کتنا حسین تھا
منظور عارف