منظر خیمۂ شب دیکھنے والا ہوگا
وہ چراغوں کو بجھائے گا اجالا ہوگا
شربتی آنکھوں میں کاجل وہ لگائے گا ابھی
رات کا رنگ ابھی اور بھی کالا ہوگا
مجھ کو ٹھہرے ہوئے ساحل سے نہیں تھی امید
مجھ کو بہتے ہوئے پانی نے سنبھالا ہوگا
آج پھر اس نے ہتھیلی کو چھپایا ماں سے
آج پھر ہاتھ میں اجرت نہیں چھالا ہوگا
زندگی پلکیں بچھا دے کہ بڑی مشکل سے
موت نے تیرے لئے وقت نکالا ہوگا

غزل
منظر خیمۂ شب دیکھنے والا ہوگا
سلیم صدیقی