منظر چشم جو پر آب ہوا جاتا ہے
چمن دل مرا شاداب ہوا جاتا ہے
وہی قطرہ جو کبھی کنج سر چشم میں تھا
اب جو پھیلا ہے تو سیلاب ہوا جاتا ہے
ایک احساس تھا جو غم سے دبا رہتا تھا
ساز غم کا وہی مضراب ہوا جاتا ہے
اس کی پلکوں پہ جو چمکا تھا ستارہ کوئی
دیکھتے دیکھتے مہتاب ہوا جاتا ہے
وہ جو شیریں دہن اس شہر میں آیا ہے مرے
اس کا بولا ہوا شہداب ہوا جاتا ہے
مجھ کو معلوم ہے گرداب نظر کا دھوکا
جو بھی احمق ہے وہ بے تاب ہوا جاتا ہے
غزل
منظر چشم جو پر آب ہوا جاتا ہے
کوثر مظہری