مناظر میں نیا اک حسن عیاں ہوتا
فسردہ پا سے لمحوں کا بیاں ہوتا
مگر ہوتے نہ جو اک یاد کے جگنو
اثاثہ ہست شب کا کیا یہاں ہوتا
لہو ٹھہرے متاع ہست صد اطوار
لہو سے یوں بھی روشن تر جہاں ہوتا
کسے بتلائیں ایسی تازہ سی خواہش
تسلسل سے دکھوں ہی کا سماں ہوتا
ادھر اکتاہٹیں ہیں نو بہ نو مائل
ہمیں جینے کو تاروں کا جہاں ہوتا
غزل
مناظر میں نیا اک حسن عیاں ہوتا
رب نواز مائل