ممنوں ہی رہا اس بت کافر کی جفا کا
شکوہ نہ کیا دل نے کبھو شکر خدا کا
اعضا کے تناسب کا نہ وارفتہ ہو اتنا
آنکھیں ہیں تو رہ حیرتی انداز و ادا کا
ہر دم ہے ہدف ناوک بیداد کا تیری
پتھر کا کلیجا ہے مگر اہل وفا کا
تابوت ہی دیکھا نہ مرا آنکھ اٹھا کر
کیا شرم ہے کشتہ ہوں میں اس شرم و حیا کا
پاس اس کے بنا دیجو مری آنکھ بھی نقاش
گر کھینچے ہے تو نقش رخ اس حور لقا کا
کس طرح میں اب سر پہ بھلا خاک نہ ڈالوں
دیکھوں ہوں نشاں در پہ تری صد کف پا کا
کس بیکسی کی مرگ ہے راسخؔ کا بھی مرنا
نعش اس کی پہ کوئی نہ ہوا محو عزا کا
غزل
ممنوں ہی رہا اس بت کافر کی جفا کا
راسخ عظیم آبادی