EN हिंदी
ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے | شیح شیری
malbus jab hawa ne badan se chura liye

غزل

ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے

سبط علی صبا

;

ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگان صبح نے چہرے چھپا لیے

ہم نے تو اپنے جسم پہ زخموں کے آئینے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کے سجا لیے

میزان عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے

لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لیے

ہر مرحلہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھ کر
ماؤں نے اپنی گود میں بچے چھپا لیے