ملال عمر گریزاں کا کرتے رہتے ہیں
یہ لوگ زندہ نہیں روز مرتے رہتے ہیں
ہوس کا زور کسی طور کم نہیں ہوتا
قناعتوں کے گھروندے بکھرتے رہتے ہیں
دیے بجھانا گرانا گلوں کو شاخوں سے
ہوا کے ہاتھ سدا کام کرتے رہتے ہیں
یہ دل گئے ہوئے لوگوں کی یاد سے روشن
اس آئنے میں بہت عکس ابھرتے رہتے ہیں
کسی تسلسل زنجیر کے سوا کیا ہیں
جو لوگ روز نظر سے گزرتے رہتے ہیں
گلی میں گھوم رہے ہیں فراق کے آسیب
مکان بند کیے ہم بھی ڈرتے رہتے ہیں
کسی بھی خواب کی تکمیل غیر ممکن ہے
جو کام ہو نہیں سکتا وہ کرتے رہتے ہیں
غزل
ملال عمر گریزاں کا کرتے رہتے ہیں
اسعد بدایونی